real ism e azam sab ke leye


اسم اعظم کی تعریف اور اسم اعظم

ہم سب جانتے ہیں کہ کسی بھی عمل کو عمل میں لانے کے لئے اس عمل کے عامل یا کسی کامل شخصیت سے اذن یا اجازت لینا ضروری ہوتا ہے۔ورنہ رجعت کا یا ناکامی خطرہ ہوتا ہے۔اور اگر سچ مچ ہم کو اسم اعظم ہی مل جاۓ تو یقیناً اس کی بھی اجازت لینا پڑے گی۔ آج کی پوسٹ میں یہ حقیر آپ کو حقیقی اسم اعظم  بتانے جا رہا  ہے وہ بھی با اجازت نہ رجعت کا خوف نہ ناکامی کا خطرہ۔

سب سے پہلے سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اسم اعظم  کیا ہے اور کس لئے پڑھا جاتا ہے۔ خالق کائنات  کا  ایسا اسم جو جمیع صفات کا حامل اور سریع التاثیر ہو اسم اعظم کہلاتا ہے۔ اسم اعظم ہم اس لیئے تلاش کرتے ہیں کہ اسم اعظم کی برکت سے اللہ تعالی کی خوشنود ی اور قرب حاصل ہو اپنے ظاہر و باطن کی اصلاح ہو روحانی ترقی ہو۔تمام ظاہری و باطنی حاجات قضاء ہوں۔ دعائیں قبول ہوں۔اور دنیاوی معاملات میں دکھ درد  تکالیف اور مصائب سے نجات حاصل ہو اور ھموم و غموم کا راستہ بند ہو۔رزق روزی و مال و دولت کی فراوانی ہو اور ہر جائز کام میں خیروبرکت ہو۔ ہر جائز مقصد میں کامیابی ہو۔مخلوقات مطیع و مسخر ہوں۔جہاں بھی  اسم اعظم پڑھا جائے تو سب کام ٹھیک ہوں۔

 ایمان والوں کے لئے اللہ رب العزت نے کچھ احکامات دیۓ ہیں۔ جن کی تعمیل کرنے کے لئے کسی سے اجازت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جیسے ارکان اسلام درود پاک قربانی۔ صدقہ و خیرات وغیرہ۔ یہ وہ اعمال ہیں جن کو عمل میں لانا نفع سے خالی نہیں ہے کبھی بھی نقصان کا منہ نہیں دیکھنا پڑتا۔ کلمہ طیبہ افضل الذکر ہے۔ درود پاک اللہ تبارک و تعالی خود بھیجتے ہیں اور ایمان والوں کو دعائے درود کا حکم فرماتے ہیں۔ اور نماز تو اللہ تعالی نے فرض قرار دی ہے۔اللہ کریم کے سبھی احکامات  آقا کریم ﷺ نے ہمیں سکھائے ہیں۔ ان  احکامات کے ساتھ  آقا کریم  نے ایک اور ایسا حکم دیا ہے  کہ پہلے یہ کام بھی کیا کرو پھر باقی کام کیا کرو۔ یہ کام کرنے سے تم کو ہر طرح کی خیر حاصل ہوگی۔ یعنی کام سنور جائیں گے۔ نقصان سے بچت ہو جاۓ گی۔ دکھ تکلیف دور ہو جائیں گے۔ آنے والی پریشانیاں دور ہی رہیں گی۔ زہر امرت بن جاۓ گا۔ دشمن دوست بن جائیں گے۔ حاسدین کے شر سے بچ جاٶ گے۔ نظر بد سے محفوظ رہو گے۔ یعنی دوسرے لفظوں میں کہیں تو آقا کریم نے ہمیں بذات خود اسم اعظم  تعلیم فرما دیا اور اس کو پڑھنے کا اذن بھی خود عطا فرما دیا۔ جس کام کا اذن  خود مختار کائنات دیں بھلا اس میں کسی اور کی  اجازت کی کیا ضرورت ہے۔ ہاں اگر کسی کامل شخصیت سے دعا کروالی جائے تو سونے پہ سہاگہ ہے۔ لیکن اگر اجازت نہ بھی ہو تو عمل کامیاب ہو سکتا ہے۔ یہ میرا ذاتی تجربہ ہے۔ تمہید بہت لمبی ہو گئی تمہید کا مقصد اصل بات سمجھانا تھا۔ اب اس خاص الخاص اسم اعظم کی طرف آتے ہیں جس کی اجازت آقا کریم ﷺ خود  عطا فرما چکے ہیں۔ تو وہ اسم اعظم ہے۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔

 یہ ایک چھوٹا سا کلمہ جو زبان زد عام ہے یہی  اسم اعظم ہے جس کو ہر جائز کام کرنے سے پہلے پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے اگر یہ کلمہ اسم اعظم نہ ہوتا تو ہر کام سے پہلے اس کو پڑھنے کا حکم کیوں دیا جاتا؟ پورا قرآن کریم شفا ہے اور ہر سورہ مبارکہ سے پہلے یہی کلمہ کیوں لگایا جاتا؟۔اس کلمہ کو پڑھنے کے لئے کسی سے اجازت لینے کی بھی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس کلمہ کو پڑھنے کا اذن کریم آقا ﷺ کی طرف سے ہر مسلمان کو حاصل ہے۔اور آقا کریم نے کچھ بھی اللہ کریم کے حکم کے بغیر ارشاد نہیں فرمایا۔  تو تسمیہ پڑھنے کا حکم بھی اللہ باری تعالی کی طرف سے ہی ہوا  ہے۔ 

اسم اعظم کے جتنے فوائد دنیا میں مشہور ہیں کیا وہ سارے فضائل بسم اللہ الرحمن الرحیم  سے مطابقت نہیں رکھتے؟ ان سب باتوں کے بعد بھی کیا اس کلمہ کے اسم اعظم ہونے میں کوئی شک باقی رہ جاتا ہے؟

عقل والوں کے لئے  تو اشارہ ہی کافی ہوتا ہے۔یہاں تو بہت سی نشانیاں موجود ہیں۔

حضور سلطان العارفین حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ تعالی علیہ کا فرمان ہے۔

ب بسم اللہ اسم اللہ دا ایہہ وی کہنا بھارا ہو۔

نال شفاعت سرور عالم لنگ سی عالم سارا ہو۔

 اتنی لمبی تحریر پڑھنے کا بہت شکریہ۔

اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو حوصلہ افزائی کے لئے پوسٹ کے نیچے کمنٹ باکس میں کمنٹ فرمائیں۔

 والسلام 

طالب دعا خاکسار ڈاکٹر مزمل حسین قادری فریدی۔