explanation of Spirituality

 روحانی قوت

(روحانیت ) 


دوستو آپ کے سامنے روحانی قوتوں کی تشریح کی جا رہی ہے۔ جو کہ روحانی عملیات میں سبق اول کی حیثیت رکھتی ہیں یہ اسی روحانیت کا ذکر ہے جو کالے علم والے بھی اور نوری علم والے بھی اپنے ناکام ہونے والے شاگرد کو کہتے ہیں کہ آپ میں روحانیت نہیں ہے اس لئے آپ کا عمل ناکام ہوا ہے۔ ان روحانی قوتوں کا جاننا نہائت ہی ضروری ہے۔ 

کیونکہ عملیات کی کامیابی کا دارومدار انسان کی باطنی قوتوں پر منحصر ہے۔
پڑھائی عقائد کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ اور یقینًا اثر بھی رکھتی ہے۔میں پڑھائی کے اثر کا انکار نہیں کر رہا۔
لیکن جب تک اندرونی قوتیں(روحانیت) کام نہیں کریں گی۔اس وقت تک چلہ یا ریاضت کچھ خاص اثر نہیں  دکھاۓ گی اور عملیات و وظائف ناکام ہوتے رہیں گے۔
ہر انسان کے اندر روحانی قوتیں موجود ہوتی ہیں۔ لیکن یہ قوتیں سب لوگوں میں یکساں نہیں ہوتیں۔ کسی میں میری طرح کم ہوتی ہیں۔ کسی میں آپ لوگوں کی طرح زیادہ ہوتی ہیں۔
تقریباً 90 فیصد بچوں میں یہ روحانی قوتیں پیدائشی بہت زیادہ ہوتی ہیں اور سن بلوغت تک برقرار رہتی ہیں اسی وجہ سے اکثر بچوں پر حاضرات کھل جاتی ہے۔ اور تقریباً 50 فیصد خواتین میں یہ روحانی قوتیں موجود ہوتی ہیں اسی وجہ سے بہت سی خواتین پر بھی حاضرات کھل جاتی ہے۔ اور حاضرات کے علاوہ بھی بہت سی خواتین ماورائی مخلوق کو دیکھ بھی لیتی ہیں۔ 
انہی روحانی قوتوں کی وجہ سے ہی عورتوں کو مردوں کی نسبت جناتی پرابلم بھی زیادہ ہوتی ہے۔
اور بالغ مردوں میں صرف 2 فیصد لوگ ایسے ہوتے ہیں جن میں روحانی قوتیں متحرک ہوتی ہیں۔ روحانی قوتوں کا انحصار حواس خمسہ باطنی پر ہوتا ہے اور حواس خمسہ باطنی کا انحصار  انسانی دماغ کی ساخت پر ہوتا۔ بچپن میں تقریباً سبھی لوگوں کے دماغ نرم ہوتے ہیں حواس خمسہ باطنی تیز ہوتے ہیں اور روحانی قوتیں زیادہ ہوتی ہیں لیکن جوں جوں انسان بڑا ہوتا جاتا ہے دماغ میں سختی پیدا ہوتی جاتی ہے اور روحانی قوتیں کمزور ہوتی چلی جاتی ہیں۔ لیکن کچھ لوگوں میں قدرتی طور پر دماغ میں سختی نہیں آتی  یعنی پائنیل گلینڈ پر سخت مواد کی تہہ نہیں جمتی تو ان کی روحانیت کمزور نہیں پڑتی۔
یہی وجہ ہے کہ بعض لوگوں کو چلہ کے پہلے روز ہی مشاہدات ہونے لگتے ہیں۔لیکن بعض لوگوں کی میری طرح عمر ہی بیت جاتی ہے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
یہی وجہ ہوتی ہے کہ  لوگ بار بار ناکامی کی صورت میں عملیات سے ہی بد ظن ہو جاتے ہیں۔اور عملیات کو فرضی اور بیکار تصور کر لیتے ہیں۔ایسے لوگ ہمیشہ مجرب عمل کی تلاش میں رہتے ہیں اور عمر ہی بیت جاتی ہے۔ ایسے لوگ اس حقیقت سے نا آشنا ہوتے ہیں۔
بار بار اور بدل بدل کر عمل کرتے رہتے ہیں۔ اور دوسروں  سے مجرب عمل پوچھتے رہتے ہیں۔اور مجرب عمل ہدیہ دیکر یا منت سماجت کرکے حاصل کر بھی لیتے ہیں لیکن پھر بھی کامیابی نہیں ملتی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایک عمل کی ریاضت ابھی اس کی اندرونی قوت پر اثر انداز ہونا شروع بھی نہیں ہوئی ہوتی کہ وہ اس سے بدظن ہوکر نیا عمل شروع کردیتے ہیں نتیجتاً حاصل کچھ بھی نہیں ہوتا بلکہ الٹا رجعت میں پھنس جاتے ہیں۔ ایسے ہی لاعلم لوگوں کے لئے یہ مضمون تحریر کیا ہے تاکہ ان کو وہ بات سمجھ آۓ جس کی انہیں ضرورت ہے۔
ان لا علم لوگوں کے بر عکس 
کچھ لوگوں کی روحانیت قدرتی تیز ہوتی ہے تو ان لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ ہم بہت پرہیز گار اور عبادت گزار ہیں اس لئے مالک کی خصوصی توجہ کا مرکز ہیں۔ ایسے لوگ  مالک کی عطا پر شکر گزار ہونے کی بجاۓ اپنا کمال سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگ عجب کا شکار ہوکر دوسروں کو حقیر سمجھنے لگتے ہیں اور ہر دوسرے شخص کی تذلیل کرتے رہتے ہیں۔ میرا یقین ہے کہ ایسے خود پسند لوگوں کے ہاتھ بھی در مقصود کبھی نہیں آتا۔
کیونکہ وہ لوگ یہ نہیں جانتے کہ سارا کام قدرت کی عطا کی ہوئی صلاحیتوں کا ہوتا ہے۔ جو مالک نے بن مانگے کرم کیا ہوتا ہے اس کو وہ اپنا کمال سمجھتے ہیں۔ 

اور کچھ لوگ مالک کے خاص چنیدہ ہوتے ہیں جن سے مالک نے اپنا کام لینا ہوتا ہے ایسے لوگوں میں قدرتی صلاحیت یکسوئی اور ارتکاز توجہ بہت  زیادہ ہوتی ہے۔ ایسے لوگ کھڑے ہی کھڑے بغیر کسی ریاضت ومجاہدے کے روحانی مشاہدات کر رہے ہوتے ہیں اور کئی طرح کے امور مالک کے حکم پر سر انجام دے رہے ہوتے ہیں۔ ہر بندہ ان لوگوں کی طرح نہیں بن سکتا۔ وہ مالک کی خاص عطا والے لوگ ہوتے ہیں۔

اور جن لوگوں میں یہ روحانی قوتیں متحرک نہیں ہوتی ہیں وہ لوگ بڑی بڑی ریاضتوں کے باوجود بھی روحانی مشاہدات اور عمل کی کامیابی حاصل  کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ 
ایسے لوگوں کو دراصل عملیاتی زندگی میں داخل ہونے سے پہلے اپنی روحانی قوتوں کو سمجھنے اور ان کو متحرک کرنے اور بڑھانے کی ضرورت ہوتی ہے۔
یاد رہے کہ روحانی قوت کو بڑھانے کے باوجود بھی کسی کو اس کی حیثیت سے زیادہ نہیں ملتا۔ اللہ پاک چاہے تو الگ بات ہے۔
روحانی قوت کو تحریک دینے کے کئی طریقے ہیں جو علماء روحانیت نے تعلیم فرماۓہیں۔ ہر شخص کے کے لئے ایک الگ طریقہ ہوتا ہے۔
ایک اچھا استاد اپنے شاگردوں کو روحانی قوت بڑھانے کی تعلیم دیتا ہے اور اس کی شخصیت کے مطابق اس کو روحانی قوت بڑھانے کا طریقہ بتاتا ہے۔
جب روحانی قوتیں متحرک ہوجائیں تو پھر جس عمل کو بھی آپ کا استاد آپ  سے پورے طریقہ سے کرواۓ گا۔اس میں بفضل خدا کامیابی ہوگی۔ اور عملیات فرضی کی بجاۓ حقیقی نظر آنے لگیں گے۔ 
ان شاءاللہ۔

میں امید کرتا ہوں کہ ساتھیوں کو اس مضمون سے لازمی فائدہ حاصل ہوگا۔ 

آپ کا خادم 
ڈاکٹر مزمل حسین چشتی قادری فریدی۔