دوستو سب سے پہلے تو اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ رجعت کا مطلب کیا ہے۔ رجعت عربی زبان کا لفظ ہے۔ کائنات میں کوئی بھی چیز جب تک اپنی منزل کی طرف سیدھے راستے پر ہوتی ہے تو وہ استقامت میں ہوتی ہے۔ اور جب وہی چیز اپنے الٹے پاٶں چلتی ہے تو رجعت میں کہلاتی ہے۔ یعنی رجعت کا مطلب ہے الٹا چلنا۔
عملیات کی دنیا میں جب کوئی عمل الٹ اثر ظاہر کرتا ہے تو اس الٹ اثر کو عمل کی رجعت کا نام دیا جاتا ہے۔
اس کے بعد رجعت کے کئی طرح کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں۔اور ہر رجعت خوردہ کی کیفیت الگ الگ ہوتی ہے اس کے عمل کے حساب سے۔ رہا سوال کے رجعت ہوتی کیوں ہے۔ تو اس کے بھی کئی عوامل ہیں۔جو احاطہ تحریر میں لانا ممکن نہیں ہے۔ یہاں پر اپنے ناقص علم کے مطابق موٹی موٹی باتیں آپ کے ساتھ شئیر کروں گا۔
سب سے پہلی بات ہےکہ حدیث کے مفہوم کے مطابق عملوں کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ جب ہم کسی اسم یا کلام کو رضاۓ الہی اور خیرو برکت کی نیت سے پڑھتے ہیں تو اس سے خیر ہی حاصل ہوتی ہے اور رجعت کا کوئی خوف نہیں ہوتا۔
اور جب ہم کسی وظیفہ کو مواکیل کی تسخیروحاضری اور روحانی دنیا کے تصرف وغیرہ کی نیت سے پڑھتے ہیں تو پھر سخت شرائط کی کشتی میں سوار ہونا پڑتا ہے۔ اب سوال یہ آتا ہے کہ شرائط کیوں لگائی جاتی ہیں۔
ایک آسان سی مثال دیتا ہوں۔ کہ آپ کسی آزاد جاندار مثلاً شیر چیتا وغیرہ کو اگر پکڑ کر اپنا مطیع و فرماں بردار بنانے کی کوشش کریں تو وہ کیا کرتا ہے۔ اس کا جواب بھی آسان ہے کہ وہ اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ اور اس دفاع میں وہ ہم کو نقصان دینے کی بھی بھرپور کوشش کرتا ہے اور حملہ آور بھی ہو جاتا ہے۔ اگر ہمارے حفاظتی انتظامات پورے ہوں اور ہم اتنی طاقت رکھتے ہوں کہ اس درندے کا دفاع کرنے کا ہر حربہ ناکام ہو جاۓ تو ہم اس پر قابو پاکر اسے پکڑ کر غلام بنا لیتے ہیں۔ لیکن اگر اس تسخیر کے عمل میں ہم سے کوئی بھول چوک ہو جائے تو وہ اسی وقت ہم کو نقصان پہنچا دیتا ہے اور ممکن ہے کہ شکاری کو جان سے ہاتھ دھونا پڑ جاۓ اسی نقصان کا نام رجعت ہے۔
۔ بالکل اسی طرح عملیات کے مواکیل ہیں جو شیر اور درندہ صفت جانوروں سے بھی ہزاروں گناہ طاقت والے ہوتے ہیں۔ جو جنات بھی ہو سکتے ہیں اور ارواح و ملائکہ اور اللہ کی کوئی اور مخلوق بھی ہو سکتی ہے اس کو تسخیر کرنا بھی اتنا ہی مشکل اور جان جوکھوں کا کام ہے۔
البتہ اگر اللہ چاہے تو کچھ بھی مشکل نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ صاحب عمل یا اللہ پاک کے مقرب بندوں سے اجازت لینا ضروری ہے تاکہ اللہ پاک کی رحمت شامل حال ہوجاۓ
کیونکہ صاحب عمل پہلے سے اس عمل کے مواکیل کو تسخیر کر چکا ہوتا ہے۔تو صاحب عمل سے اجازت حاصل ہوتے ہی مواکیل طالب کے مانوس ہو جاتے ہیں اور استاد کی حرمت کی وجہ سے طالب کو نقصان نہیں پہنچاتے اور طالب کی طابعداری میں آجاتے ہیں۔ جب وہی عمل کوئی بغیر اجازت کے عمل میں لاتا ہے تو پہلے تو شیاطین آجاتے ہیں اس کو بھٹکانے اور ڈرانے دھمکانے اور مواکیل بھی ہاتھ پاٶں مارتے ہیں اور اس بندے کی پختگی کا امتحان بھی لیتے ہیں اور ارد گرد کی سفلی مخلوقات بھی خوب زور لگاتی ہے بندے کو بھٹکانے کی اور ڈرانے کی۔ اگر اللہ رب العزت کی رحمت شامل حال ہو تو بندہ ان کے امتحان میں پاس ہوجاتا ہے۔
اللہ تبارک تعالی کی خوشنودی اور مواکیل سے انس حاحل کرنے کے لیۓ احتیاط اور پرہیز گاری کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اور کم کھانے کم سونے اور کم بولنے سے انسانی قلب و دماغ کی اندرونی قوتوں کو تحریک ملتی ہے۔ اس کے نتیجہ میں سکون قلب ارتکاز توجہ اور تصور اور یکسوئی حاصل ہوتی ہے۔ جو کہ عمل کی کامیابی کی ضمانت ثابت ہوتی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اسمائے باری تعالی اور کلام پاک کی نورانی قوتیں کیونکہ عالم بالا سے تعلق رکھتے ہیں تو وہ بدبو اور گندگی وغیرہ برداشت نہیں کرتے اس لیۓ عامل کا باوضو رہنا اور عمل کرنے کی جگہ کا معطر اور پاک صاف ہونا بھی ضروری ہوتا ہے۔ اگر عمل کی جگہ ناپاک اور بدبودار ہو تو بھی رجعت کا ہونا اٹل ہے۔
البتہ کچھ شیطانی عملیات وغیرہ کا انحصار ہی گندگی پر ہوتا ہے تو اس کی بات الگ ہے۔
تیسری بات یہ بھی بہت اہم ہے۔ وہ یہ کہ تمام عملیات کا مزاج ہوتا ہے۔ کوئی جلالی عمل ہوتا ہے کوئی جمالی اور کوئی عمل معتدل ہوتا ہے۔
اور اسی طرح آتشی بادی آبی اور خاکی عناصر ہوتے ہے۔ یہ بھی رجعت کی وجہ ہوتی ہے کہ عامل کا مزاج عمل سے غیر موافق ہوتا ہے تو جب طالب عمل شروع کرتا ہے تو نا موافقت کی وجہ سے مختلف جسمانی و روحانی امراض کا بھی شکار ہو جاتا ہے۔
چوتھی بات یہ ہے کہ مواکیل وقت کے پاپند ہوتے ہیں اور عمل کے مقررہ وقت پر عامل کے مقام عمل پر پہنچ جاتے لیکن جب عامل وقت کی پابندی نہیں کرتا تو مواکیل بیزار ہو کر جلال میں آجاتے ہیں تو بھی عامل رجعت کا شکار ہو جاتا ہے۔
پانچویں بات ہر اسم یا کلام کسی برج یا ستارے سے منسوب ہوتا ہے۔ عمل کے منسوب برج اور اس کے متعلقہ ستارے دن اور ساعات وغیرہ کا خیال نہ رکھنا بھی رجعت کا باعث بن سکتا ہے۔
*اہم نوٹ*
ایسے افراد جو کسی روحانی یا دماغی مرض میں مبتلا ہوں جادو یا جنات کے مریض ہوں ان کو ہرگز عملیات نہیں کرنے چاہیئیں۔
اور وہ افراد جن کی پیدائشی روحانی قوت تو تیز ہو لیکن برداشت کا مادہ کم ہو ایسے افراد کو بھی عملیات سے دور رہنا چاہئے۔ کیونکہ ایسے افراد کو پہلے دن سے ہی مشاہدات ہونا شروع ہو جاتے ہیں لیکن برداشت کی کمی کی وجہ سے رجعت کا شکار ہو سکتے ہیں یا جسمانی طور پر بیمار ہو سکتے ہیں۔ اور آسیب زدگی میں بھی آ سکتے ہیں۔
تو دوستو یہ موزو تو بہت لمبا ہے مگر وقت کی قلت کی وجہ سے میرے ناقص خیال میں اتنی بحث کافی ہے۔ امید کرتا ہوں کہ دوستوں کو کئی سوالوں کے جوابات اس مضمون میں مل گئے ہونگے۔ اگر کچھ غلط بول دیا ہو تو معذرت خواہ ہوں۔
رجعت کا علاج ۔ Rijat ka Elaj
سب سے پہلے تو اوپر والی باتوں پر غور کرکے عمل کریں اور حفاظت کی دعائیں بھی پڑھتے رہا کریں تاکہ رجعت سےمحفوظ رہا جا سکے۔
اگر کسی کو کسی امر کی وجہ سے رجعت ہو چکی ہو تو پھر اس کو علاج کی ضرورت ہوتی ہے رجعت کے علاج کا نہائت ہی آسان اور مجرب المجرب عمل نیچے لکھنے جا رہا ہوں۔
تازہ وضو کرنے کے بعد دو رکعت نماز نفل ادا کریں اس کا ثواب اپنے پیر و مرشد اور مرشد خانے کے مشائخ کرام کی ارواح کو ایصال کریں اور ان کے وسیلہ سے دعائے خیر کریں۔
بعدہ جائے نماز پر قبلہ رو بیٹھ جائیں اور اپنے سر پر ٹوپی اس طرح سے پہنیں کہ دایاں کان ٹوپی کے نیچے چھپ جائے اس کے بعد 33 مرتبہ سورہ عبس کی تلاوت کریں اگر زبانی یاد نہ ہو تو ناظرہ بھی پڑھ سکتے ہیں سورہ مبارکہ کی تلاوت کرنے کے بعد دائیں طرف دم کردیں اور ٹوپی سر سے اتار کر تین مرتبہ زمین پر مار کر جھاڑ دیں۔
اب پہلے کی طرح ٹوپی سر کے بائیں جانب کان کے اوپر پہنیں اور اسی طرح 33 مرتبہ سورہ عبس کی تلاوت کریں اور بائیں جانب دم کرکے ٹوپی جھاڑ دیں،
اب تیسری مرتبہ ٹوپی سر کے اوپر درمیان میں پہنے جیسے عام طور پر سر پر ٹوپی پہنی جاتی ہے اب 33 مرتبہ سورہ عبس کی تلاوت کی تلاوت کرنے کے بعد آسمان کی طرف دم کرکے ٹوپی جھاڑ دیں اور درود شریف پڑھ کر عمل مکمل کرلیں۔
ان شاءاللہ ایک دن کے عمل سے ہی رجعت سے نجات مل جائے گی۔ اگر خدا نخواستہ ایک دن کے عمل سے رجعت ختم نہ ہو تو تین دن یہی عمل کرے اللہ نے چاہا تو رجعت سے کلی شفاء حاصل ہوگی۔
اگر رجعت یافتہ شخص خود یہ عمل نہ کرسکتا ہو تو کسی دوسرے سے بھی مدد لے سکتا ہے۔ یعنی کوئی دوسرا شخص اس کے لئے عمل کر سکتا ہے۔
اس کا طریقہ یہ ہے کہ نفل ادا کرنے کے بعد رجعت یافتہ کو سامنے بٹھا کر ٹوپی اس کے سر پر رکھ کر تلاوت کرے اور اس کے دائیں جانب دم کرے اور ٹوپی اتار کر جھاڑ دے، اسی طرح بائیں جانب اور اوپر کی طرف دم کرے جیسے اوپر بتایا ہے۔ان شاءاللہ مالک کے فضل و کرم سے کامیابی ملے گی۔
آپ کا خادم
ڈاکٹر مزمل حسین چشتی قادری فریدی۔
2 Comments
Rijat ka Elag bataaenSaaen
ReplyDeleteمحترم رجعت کا علاج بھی اسی تحریر کے نیچے تحریر کر دیا ہے
DeletePost a Comment